Moteb E Shifa (مطب شفا)

منگل، 1 دسمبر، 2020

ادنٰی ہمیشہ اعلٰی کی طرف جاتا ہے

 ادنٰی ہمیشہ اعلٰی کی طرف جاتا ہے 





*دو سال قبل (27 نومبر 2018) ائمہ مساجد کیلئے لکھی گئی دردمندانہ تحریر*

عام طور پر جو معاشرے میں ہر خاص و عام کو معلوم ہے، اگر کہیں دس ہوٹلیں ہوتی ہیں تو انکی بھی ایک مُتفقہ یونین ہوتی ہے جو ان کے معاملات کو دیکھتی ہے اور وہ مُنظّم طریقے سے اپنے نظام کو چلاتے ہیں. تقریباً مینے پوری کراچی میں محسوس کیا ہے اور کسی بھی ہوٹل پے چائے پی ہے، تو جو چائے کی پیالی مجھے ملیر میں پچیس روپے کی ملی وہی چائے کی پیالی مجھے کھارادر میں بھی پچیس روپے کی ملی، مجھے بڑا تجسس ہوا کہ یار یہ ہوٹل والے ہوکر بھی اتنا مُنظّم ہوکر چل رہے ہیں اور اس طرح انکے آپس میں روابط بھی مضبوط ہیں کہ جو چائے کی پیالی مجھے وھاں پچیس روپے کی ملی تھی وہ یہاں پر بھی پچیس روپے کی ہی مل رہی ہے!! خیر، کچھ دن گذر گئے، میری چپل کا تسمہ ٹوٹ گیا وہ میں نے مرمت کرنے والے سے بنوایا تو اس نے دس روپے لئے، کچھ دنوں بعد میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا، گھروالوں میں سے کسی فرد کے چپل کا تسمہ ٹوٹ گیا تھا تو میں بنوانے کے لئے دوسرے کے پاس لے گیا تو اس نے بھی دس روپے لئے، مجھے بڑی حیرانگی ہوئی۔۔۔

اس حیرانگی کے عالم میں مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے اس سے سوال کیا!! ”جناب میں نے کچھ دن پہلے فلاں شخص سے تسمہ بنوایا تو اس نے بھی دس روپے لئے اور آج آپ نے بھی دس روپے لئے“؟ یہ آپ لوگ ایک ریٹ پر کیسے مُتفق ہوتے ہیں؟ "یا تو آپ مجھ سے پندرہ روپے لیتے اور وہ بیس روپے لیتا یا آپ بیس روپے لیتے اور وہ آٹھ روپے لیتا"۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے بھی دس روپے لیے اور آپ نے بھی دس روپے لیے۔۔۔

اس شخص نے مجھ سے کہا "مولانا ہماری یونین بنی ہوئی ہے وہ ہمارے معاملات کو طے کرتی ہے اور ھم اُسی کے مطابق چلتے ہیں، ہم میں سے اگر کسی ایک شخص کو بھی کوئی بندہ تنگ کرتا ہے تو یونین اس کا تحفظ کرتی ہے، اگر ہم میں سے کسی کے معاملات بگڑ جاتے ہیں تو

اور اِک ائمہ مساجد کا طبقہ ہے جو اس معاشرے میں مظلومیت کا شکار ہے، بیچارے بیس، بیس سال تک مسجد اور محلے کے بچوں کو دینی تعلیم دیتے ہیں۔۔ اگر کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو "نمازی" امام صاحب کو اذان دلوانے کے لیے ایسے لیکر جاتا ہے کہ جیسے امام اسکا نوکر ہو، اگر کسی کا نکاح ہو تو بیس، بیس ہزار میں شادی ہال بُک کرواتے ہیں، لاکھ سوا لاکھ کے کھانے کا اہتمام کرتے ہیں مگر مولوی صاحب نکاح پڑھائے تو اسکو ہزار پندرہ سو دیکر اللہ حافظ کہہ دیتے ہیں۔۔۔

اتنی قربانیاں دینے کے باوجود بیس سال میں ایک مرتبہ بھی کسی نمازی کی "جی میں جی" نہیں کہا تو اسکو مسجد سے ایسے نکال دیتے ہیں کہ جیسے بیچارہ کوئی گمشدہ ہو اور اسکو اپنے والدین لینے آئے ہوں! بیچارے کا کو والی وارث نہیں ہوتا۔ اسکی کوئی داد رسی نہیں ہوتی، کوئی نمازیوں کو سمجھانے والا نہیں ہوتا۔۔۔ 

آخر کار وہ امام صاحب یا تو کسی کمپنی میں کام کر رہا ہوتا ہے یا کسی ہوٹل پے برتن مانجھ رہا ہوتا ہے اور اس طرح اپنی پوری زندگی اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے میں گذار دیتا ہے۔۔۔

نتیجتاً اس عمل کے بعد دین سے دلبرداشتہ ہوکر نا اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دیتا ہے اور نہ ہی نیکیوں میں سبقت لینے کی جستجو کرتا ہے اور اگر اس سے کوئی بندہ مشورہ لیتا ہے کہ "مولانا صاحب" میں اپنے بچے کو کس مدرسے میں داخل کروائوں؟ اسی اثنا میں وہ اپنی کہانی شروع کر دیتا ہے جس سے وہ بندہ بھی بدظن ہوجاتا ہے یوں رفتہ رفتہ دین کے ترجمان ختم ہوتے جارہے ہیں۔۔۔

خدارا ائمہ مساجد منظم ہوجائیں اگر ہوٹلوں کی یونین ہوسکتی ہے اور موچیوں کی یونین ہوسکتی ہے، صرف انکو مضبوط کرنے کے لیے، تو کیا جو "دین کے ترجمان ہیں، منبرِ رسولﷺ کے وارث ہیں انبیاء کے جانشین ہیں، مسلمانوں کے پیشوا ہیں" انکا کوئی والی وارث نہیں ہوسکتا؟ انکی کوئی کمیٹی نہیں ہوسکتی؟ انکے معاملات دیکھنے اور چلانے کے لئے انکا کوئی مُتفقہ ادارہ نہیں ہوسکتا جو انکی بروقت فریاد رسی کر سکے اور معاملات کچھ اس طرح ہوجائیں کہ کوئی نمازی اگر امام کے "جی میں جی" نہ کہے تو سارے نمازی اس نمازی پر سختی کریں کیوں کہ امام اعلٰی ہے اور نمازی ادنٰی ہے

ادنٰی ہمیشہ اعلٰی کی طرف جاتا ہے نا کہ اس کے برعکس۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me Know