قسط نمبر20 - تشخیص امراض ومزاج
خبر رساں اعصاب:
اب جب خبر دماغ کو
خبررساں اعصاب نے پہنچادی دی تو دماغ آنکھ کو مضروب مقام دیکھنے اور ہاتھ کو مضروب
مقام کی تیمارداری اور حفاظت کے لئے حکم دیتا ہے کہ دیکھو کیا ہوا ہے۔ جو اعصاب ان احکامات کی بجا آوری کرتے ہیں، ان
کو حکم رساں اعصاب کہتے ہیں۔
اسی طرح بات آتی ہے سوداوی
مادے کی تو اس کے بارے میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ اس کی رہائش گاہ قلب عضلات ہیں۔
ان عضلات کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک ارادی عضلات ایک غیر ارادی عضلات ۔
اسی طرح صفرا کی
رھائش گاہ جگر ہے جگر ایک بہت بڑا غدد ہے۔ تمام جسم کے غدد اس کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
ان کی دو قسمیں ہیں۔
1۔ غدد
ناقلہ
2۔ غدد جاذبہ
اب
سوداوی مادے سے متعلق عضلات کی وجہ سے ہم ایک خلط کو عضلاتی کہتے ہیں۔ تو صفرا کا
ٹکانا جگر ہونے کی وجہ سے جو ایک غدود ہے۔ اسلئے اس مادے کو ہم اپنی آسانی کے لئے
غدی کہتے ہیں۔
اعضاء
رئیسہ کس طرح تخلیق ہوۓ
اب تھوڑی تشریح کہ کیسے اعضاء رئیسہ تخلیق ہوۓ
اور کیسے ان کے ماتحت بنے یا جو خادم ہیں وہ کیوں کر ہیں۔ یہ تو اب آپ کو علم ہو ہی گیا ہے کہ مفرد اعضاء یعنی وہ اعضاء جن کے اپنے اندر کوئی ملاوٹ
نہیں ہے۔ بلکہ ایک اکیلے مادے سے بنے ہوۓ
ہیں۔ وہ صرف تین ہی ہیں۔
1۔ دماغ
2۔جگر
3 ۔دل
ہاں ان تینوں پہ باقی دونوں اعضاء کے پردے ضرور چڑہے ہوۓ
ہیں۔ وہ بھی سفارتی رابطہ کے لئے یا ایک دوسرے سے مدد لینے کے لئے۔
اب ہم سب
سے پہلے ابتدائی مادے کو لیتےہیں جو کہ مٹی ہے۔ شاعرون نے تو پتہ نہیں مٹی کو کیا سے کیا بنادیا
لیکن جب ہم حقیقت کی طرف آتے ہیں تو ہمیں مٹی میں دونوں چیزیں نظر آتی ہیں۔ فنا کی
بھی اور بقا کی بھی ۔۔۔۔ بات شاعروں کی کررہا تھا۔ اب مجھے بھی ایک شعر یاد آیا ھے پتہ نہیں کس
شاعر کا ہے بہرحال میرا نہیں ہے۔
شعر تھا۔۔۔
فنا فی اللہ کی تہہ
میں بقا کا راز مضمر ھے ۔۔۔
جسے مرنا نہیں آتا
اسے جینا نہیں آتا۔۔۔
اس شعر میں بہت ہی بڑی
ایک حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے۔ بہرحال ہم طبی
نقطہ نظر کی بات کرتے ہیں۔ ابتدائی
مادہ مٹی میں نشوونما اور ارتقاء کی قوت اتم موجود ہے ۔ دیکھ لیں اس کی ابتدائی
ارتقا وترقی پتھر ہے۔ اس کے بعد چونا یا
کیلشیم میں تبدیلی ہے اور جب یہ دھاتوں میں تبدیل ہوتی ہے تو کبھی قلعی کبھی چاندی
کبھی تانبا کبھی لوہا کبھی سونا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ سب ارتقائی منازل یا صورتیں ہیں۔ لیکن یہی مٹی جب انسانی جسم کے اندر ارتقائی
منازل طے کرتی ہیں۔ تو اول الحاقی مادہ میں تبدیل ہوتی ھے ۔
الحاقی مادہ ایسے
اعضا بناتی ہے جنہیں آپ بنیادی اعضا کہتے ہیں۔ مثلا ہڈی کری اور وتر ۔ اب ان میں ہڈی مرکزی عضو
بن جاتا ہے۔ باقی کری اور وتر اس کے خادم بن جاتے ہیں۔
اب جب الحاقی مادے میں
نشو ونما وترقی ہوتی ہے تو وہ عضلاتی مادہ یا آپ کہہ لیں مسکولر ٹشوز میں تبدیل ہوجاتا
ہے۔ اب اس مادہ سے جو اعضا بنتے ہین انہیں
آپ عضلات یا عضلاتی اعضاء یا پھر حرکتی اعضاء کہتے ہیں۔ اب اس مادے کی رھائش گاہ یا مرکز آپ کو بتا چکا ہوں،
قلب ہے۔ اب اس کے دو خادم ہیں ۔جنہیں آپ
ارادی عضلات اور دوسرے کو غیر ارادی عضلات کہتے ہیں۔
امید ھے اب بات کی
سمجھ آچکی ہو گی۔ اب آگے چلتے ہیں۔ اب بات
کو سمجھیں جب اس الحاقی سے ترقی ہو کر عضلاتی اعضاء بنے تو جب یہ مزید نشوونما اور
ترقی کرتے ہیں تو یہ غدی یا قشری مادہ کہہ لیں، اس میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسے
میڈیکلی زبان میں ایپتھل ٹشوز کہتے ہیں۔ ایپتھل ٹشوز یاقشری مادہ سے جو اعضاء بنتے ہیں،
انہیں آپ غدی اعضاء کہتے ہیں اور یہ بات میں آپ کو بتاچکا ہوں کہ ان کی رھائش گاہ
یا مرکز جگر ہے اور ان کے بھی دوہی خادم ہیں۔ جنہیں آپ غددجاذبہ اور غددناقلہ کہتے ہیں۔
اب جب قشری مادے میں
مزید نشوونما اورترقی ہوتی ہے تو وہ اعصابی مادہ یانروز ٹشوز میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اس مادے سے جو اعضاء بنتے ہیں آپ انہیں
اعصابی اعضاءکہتے ہیں۔ اب ان کے بھی دو ہی
خادم ہوتے ہیں۔
1۔ خبررساں اعصاب
2۔ حکم رساں اعصاب
اب یادرکھیں۔
انسانی جسم میں اس الحاقی مادہ کی یہ
چوتھی شکل ہے یا ارتقائی منزل چوتھی ہے۔ اب اس کے بعداس کی کوئی ارتقائی شکل نہیں پائی
جاتی۔ اب ایک بات اور بھی یاد رکھ لیں۔ جس
طرح سونا مٹی کی انتہائی آخری شکل ہے اور سب دھاتوں سے قیمتی سمجھی جاتی ہے۔ اسی
طرح دماغ بھی انسانی جسم میں ارتقائی منازل کی آخری شکل ہے۔ اس لئے یہ بھی انسانی جسم میں سب سے افضل
اوراعلی مقام پہ ہے۔ ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے۔
باقی اگلی قسط میں

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
If you have any doubts, Please let me Know