Moteb E Shifa (مطب شفا)

جمعرات، 21 نومبر، 2024

قسط نمبر 19 تشخیص امراض ومزاج، مادہ سودا، مزاج، حکم رساں اعصاب

 

 قسط نمبر 19 تشخیص امراض ومزاج


 

دوسرا  مادہ سودا

دوسرا مادہ سودا ہے۔ ہر سرد اشیاء یا مادے کا تعلق سودا ہے اسے انسانی جسم میں گھر کے طور پر قلب یا عضلات ملے ہیں۔

 تیسرا مادہ صفرا کا ہے ۔ ہر گرم مادے کا تعلق صفرا سے ہے۔ اسے بطور گھر جگر ملا ہوا ہے۔

 

اب بات کو سمجھیں انسانی جسم میں تین بادشاہ ہیں۔  آپ سوچ رہے ہونگے ایک ملک میں دو بادشاہ یا ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ پھر یہ کیا ماجرہ ھے کہ ایک ملک یا جسم میں تین تین بادشاہ کیسے ہوسکتے ہیں تو دوستو  ان کے بادشاہ ہونے میں تو کچھ شک نہیں ہے کیونکہ جدید سائنس بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہے۔ باقی تمام جسم سے آپ کسی بھی اعضاء کو بےشک نکال دیں ، جیسے ایک گردہ نکال دیا بندہ زندہ رہا۔ ایک ٹانگ کٹ گئی بندہ زندہ رہا۔  ایک آنکھ جاتی رہی کچھ نہ ہوا۔ بازو ،آنت کا کچھ حصہ چاہے کچھ بھی کاٹ کر نکال لیں، زندگی کچھ نہ کچھ عرصہ برقرار رہے گی۔  لیکن انسانی جسم میں دل دماغ اور جگر تین ایسے حصے ہیں جن کو اگر آپ مکمل نکال لیتے ہیں تو زندگی ایک منٹ برقرار نہیں رہ سکتی۔  اس لئے ان کو اعضائے رئیسہ بولا گیا ہے۔ اس لئے ان کو بادشاہ کا درجہ ملتا ہے۔ پورے جسم کے تمام نظام ان تینوں کے ہی ماتحت ہیں۔ کچھ یار لوگوں نے ایک چوتھا بھی بادشاہ تخلیق کردیا جسے آپ تلی کہتے ہیں۔ تلی انسانی جسم سے اگر مکمل نکال دیں تب بھی زندگی برقرار رہتی ہے۔ جب یہ صفت زندگی والی اس میں موجود ہی نہیں تو اعضائے رئیسہ کیسے بن گیا۔

اب ایک اہم بات کرتے ہیں۔ طب قدیم نے چوتھی خلط خون تجویز کی تھی۔  جسے جدید نظریات اور تجربات سے درست قرار نہ دیا یہ دموی مزاج تھا۔  تجربہ سے کیوں غلط ثابت ہوا۔  اب بات کو سمجھیں ہر رطوبت جس کا میں پہلے ذکرکرچکا ہوں،  اب انسان بے شمار رطوبت والی اشیاء کھاتا ہے انکے اپنےاپنے ذائقے ہیں ۔ لیکن ہیں رطوبتی اثر والی یہ سب چیزیں۔  جب مختلف مراحل سے گزر کر انسانی جسم میں مادے کی شکل اختیار کریں گی تو اس کی دو ہی صورتیں ہونگی ، ایک بالکل خالص اور اچھے اثرات پیدا کرنے والی یعنی جسم کی تعمیر کرنے والی رطوبات یا پھر ردی الکیموس سے تیار ہونے والی رطوبت،  جو جسم کو نقصان بھی دے سکتی ہیں۔ اسی طرح ہر مادے کے یہ دو پہلو ضرور ہیں ایک اچھا ایک برا لیکن انہوں نے انسانی جسم پہ جو بھی اثرات چھوڑنے ہیں وہ اپنے متعلقہ اعضائے رئیسہ کے ماتحت ہی چھوڑنے ہیں۔  اب یہ نہیں ہو سکتا  ، مالک ایک اعضائے رئیسہ ہو تو حکم دوسرا چھوڑتا پھرے بلکہ یہ تینوں اعضائے رئیسہ انتہائی شرافت سے اپنے کام سے کام اور اپنے اپنے ماتحت مادوں اوراعضاء سے کام لیتے ہیں۔  خیر یہ تشریح آگے کریں گے کونسا اعضاء کس کے ماتحت ہے ۔

 

اب اس سے پچھلی قسط میں بات شروع ہوئی تھی خلط کی تو دوستو خلط اسے کہتے ہیں جو انسانی جسم میں اپنی مقررہ مقدار میں کمی بیشی کرکے اپنا وجود رکھتی ہے۔  اگر مقررہ مقدار سے کم ہو جاۓ یا بڑھ جاۓ تو علامت موت کی ہے۔ لیکن جسم میں اپنا وجود ہر صورت ا س وقت تک رکھتی ہے، جب تک زندگی برقرار ہے۔  دوسری چیز جس کا ذکر ہم نے کیا تھا وہ تھی مزاج۔

 

مزاج ۔۔۔ ان اخلاط سے مل کر جو کیفیت انسانی جسم میں بنتی ھے وہ مزاج ہوتی ہے۔  یعنی تین مادے جن کا ہم ذکر کرچکے ہیں، بلغم سودا اور صفرا ۔۔۔۔۔ اب ان میں سے کوئی دومادے آپس میں مل کر مزاج بناتے ہیں۔ یعنی ہم ایک اکیلے مادے چاہے بلغمی ہو چاہے سوداوی ہو یا صفراوی ہو، اسے خلط کہیں گے۔  اگر دو کوئی مادے مل کر انسانی جسم کی خواہ تعمیر کررہے ہیں۔ خواہ بگاڑ پیدا کررہے ہیں، لیکن وہ کہلائیں گے مزاج ہی ۔۔۔۔۔؟؟؟

خلط ہمیشہ قائم دائم رہنے والی چیز ہے۔  جبکہ مزاج بدلتا رہتا ہے۔  مسلسل ایک نہیں رہتا۔  اب بچپن میں مزاج اور ہوتا ہے۔ نوجوانی اور بڑھاپے میں مزاج اور ہوتا ہے۔  

اسی طرح عورت اور مرد کے مزاج بھی الگ الگ ہیں۔ لیکن تخلیق دونوں ہی ایک جیسے مادوں سے یا اخلاط سے ہوۓ ہیں۔ ایک نوجوان مرد کا فطری مزاج الگ تو نوجوان عورت کا فطری مزاج الگ ہوتا ہے۔  پھر تمام مردوں کے مزاج ایک جیسے نہیں ہوتے۔  نا ہی تمام عورتوں کے مزاج ایک جیسے ہوتے ہیں۔

اب اگر بلغمی مادہ کے ساتھ کچھ مقدار صفرا کی شامل ہو گئی تو ہم اسے تر گرم مزاج کہتے ہیں۔  اسے طبی زبان میں اعصابی غدی کہیں گے۔  اب اسے اعصابی غدی کیوں کہا ھے، آئے اب اس بات کو سمجھتے ہیں۔

پہلی بات آپ کو بتا چکا ہوں۔ بلغمی مادے کی رہائش گاہ دماغ ہے اور تمام جسم میں پھیلے اعصاب بھی دماغ سے ہی نکلتے ہیں۔ اب اعصاب سب کے سب دماغ کے ماتحت ہیں۔  یہ پورے جسم میں پھیلے ہوۓ ہیں۔

 

حکم رساں اعصاب:

 یہ دوقسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ اعصاب جو کسی بھی مقام سے خبر لے کر دماغ تک منتقل کرتے ہیں۔  جیسے کسی بھی جگہ انسانی جسم پہ ضرب لگی تو ا س کی خبر یا احساس کہہ لیں فورا دماغ تک منتقل ہوتا ہے۔  اب یہ کام اعصاب کا ہے۔ اب جن اعصاب نے یہ احساس یا خبر دماغ تک منتقل کی ہے ہم انہیں خبررساں اعصاب کہتے ہیں

باقی اگلی قسط میں 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me Know