Moteb E Shifa (مطب شفا)

ہفتہ، 30 نومبر، 2024

قسط نمبر 27 ، تشخيص امراض وعلامات، نبض کیا ھے

تشخيص امراض وعلامات۔۔۔قسط نمبر 27

 

نبض کیا ھے۔

نبض۔۔۔۔یہ علم انسان کے پاس ہزاروں سال سے ہے۔ بڑا ہی عجیب وغریب علم ہے۔ جسے علم نہیں اس کے لئے صرف شریان کی پھڑکن کا نام نبض ہے۔ جسے اس فن کا علم ہوگیا اس کے لئے کائینات کے رازوں میں سے ایک راز کا جاننا ہے۔

 نبض بڑا ہی گہرائی رکھنے والا علم ہے۔  طب کاانحصار تو سچ سمجھیں پورے کا پورا فن نبض پہ ہے یا قارورہ لیکن ایلوپیتھک میں کچھ حصہ نبض کا سمجھا گیا ہے۔ جیسے ای سی جی یا بلڈ پریشر چیک کرنا نبض کی رفتار یا بندہ زندہ ہے یا مردہ اس کے لئے گردن سے نبض کی حرکت محسوس کرنا۔

 

لیکن طب میں نبض کی حرکت کلائیوں سے دیکھی جاتی ہے۔ لیکن ایک بات یاد رکھیں ہر طبقہ یا فرقہ یعنی ہر طریقہ علاج آخر میں زندگی کی تلاش نبض سے ہی کرتا ہے۔ ایک طبیب یہ کرتا ہے پہلے ہی روز سے مرض کی تلاش نبض سے کرتا ہے۔ بے شمار ٹیسٹ کروا لیں ٹیسٹ غلط ہو سکتے ہیں لیکن نبض غلط نہیں ہو سکتی۔ اب

 

ایک چھوٹی سی مثال:

اس پہ ایک چھوٹی سی مثال سمجھ لیں۔ آپ لیبارٹری تشریف لے گئے ٹیسٹ ہوۓ۔ انہوں نے ہیپاٹائٹس نکال دیا۔  میرے بھیجے ہوۓ مریض کے تین دن بعد پھر ٹیسٹ کروا لیں، کلیر آجائیں گے۔ ہوتاکیا ہے ؟ لوہے کو لوہے سے کاٹ دیتا ہوں۔ یہ کام اللہ گواہ ہے میں نے غریب اور بے بس وہ لوگ جو عرب مزدوری کے لئے جاتے تھے۔ سب جمع پونجی داؤ پہ لگا کے عربوں کی نوکریاں کرنے چلے جاتے تھے۔  انہوں نے لیب ٹیسٹوں کی شرط لگا دی۔ اب یہاں بہت سی لیب نے ان کے سفارتخانوں سے اپنی لیبارٹریوں کے ٹیسٹ منظور کروا کے ان غریبوں کو لوٹنا شروع کردیا۔  اگر ٹیسٹ تھوڑا بھی مشکوک ہوا، اسے کلیر کرنے کے ان لیبوں نے لاکھ روپیہ ریٹ رکھ دیا۔  اب جس کے پاس لاکھ نہیں وہ حکیموں اور ڈاکٹروں سے رگڑے لگوا کر تھک ہار کر سب کچھ لٹا کر گھر بیٹھ جاتا۔  یہی کیس ایک میرے پاس آیا ساتھ شرط بھی یہ تھی صرف پندرہ دن رہ گئے ویزہ ختم ہوجانا ہے۔ میں نے کافی دیر سوچا اللہ تعالی نے دماغ روشن کردیا ۔ یاد رکھیں میں نے اس شخص تو کیا ۔۔۔ کسی بھی سعودیہ جانے والے ان لاچار لوگوں سے دس روپیہ بھی وصول نہیں کیے۔ ایک حکیم جو شرط ہے واقعی حکیم ہو، اسے میری بات سمجھنے میں چند سیکنڈ لگیں گے ہیپاٹائٹس کا شکار مریض کے جسم میں اگر کھار بننی شروع ہو جاۓ تو ہیپاٹائٹس ختم ہوجاتا ہے۔ وائرس کی ایسی کم تیسی ایک منٹ بھی وہاں رہ سکے ایلوپیتھی کا ایک پکا نظریہ ہے کہ وائرس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔کوئی ایسی زہر نہیں جو انسان کو بھی زندہ رہنے دے اور وائرس کو بھی ختم کردے۔  لیکن میرے بھائیو ایک بات یاد رکھیں طب میں ایسی تین زہریں موجود ہیں جن سے ہرقسم کا وائرس ختم کیا جا سکتا ہے اور بدن پہ زرہ بھی خراش تک نہیں آتی۔  اب ہیپاٹائٹس کے وائرس کو کھار پیدا کرکے ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جس کھار کا میں ذکر کرنے لگا ہوں یہ کیمیکلی ہے۔ عارضی چیز ہے۔ مستقل علاج نہیں ہے۔ ہاں جو بات میرے دل میں اللہ نے ڈالی وہ یہ تھی کہ اس بندے کے جسم میں عارضی طور پہ اتنی کھار بھر دو کہ لیبارٹری کے سب کمپیوٹر اور کٹس بے وقوف بن جائیں۔ میں نے اس شخص کو سوڈامنٹ کی پانچ پانچ گولیاں دن میں تین بار پانچ روز کھلائیں، پھر علاقہ کی اچھی لیب سے ٹیسٹ کروایا جو کلیر آیا اور مریض کو گولیاں نہیں چھوڑنے دیں۔ مسلسل کھلوائیں چند روز بعد متعلقہ لیب سے ٹیسٹ ہوا اور کلیر آیا بس پھر کیا تھا یہ جا وہ جا بندہ سعودیہ پہنچ گیا۔  یاد رکھیں راز تو میں کھول دیااب اگر کسی نے اسے غلط استعمال کیا یا کسی مریض کو یہ کھلا کر لوٹا تو میری دعا ہے اللہ تعالی اسے سیدھا جہنم لے جاۓاوردنیا میں عبرت ناک انجام کاحق دارٹھہرے اس بات کو علم کی حد تک امانت سمجھیں۔

یہ مثال تھی لیبارٹری ٹیسٹوں کی توسچ کیاہےنبض؟

 

بے شمار حکماء نے اپنےاپنےانداز میں نبض کی تعریف لکھی ہے متفقہ الیہ حکماءفرماتے ہیں ۔

نبض شریان کی اس حرکت کانام ہے جو دل کے انقباض یعنی دل کا سکڑنا اور انبساط یعنی دل کے پھیلنے کے ساتھ ان میں جو خون پھیکنے سے جو حرکت پیدا ہوتی ہے اسے نبض کہتے ہیں اور یہ حرکت جسم کی تمام شریائیں پیدا کرتی ہیں وریدیں نہیں ۔۔لیکن یہاں پہ ان مخصوص شریانوں کی بات ہورہی ہے جو بعض مقامات یعنی انسانی جسم میں بعض جگہوں پہ واضح طورہوتی ہیں اورانگلیاں رکھنے پہ ان کی تڑپ محسوس ہوتی ہے۔  ان میں زیادہ ترکلائی کنپٹی ٹخنے گردن کی شریانیں  ہیں۔ لیکن زیادہ تر نبض بلکہ حکماء متفقہ الیہ کلائی کی نبض کو ترجیح دیتے ہیں ۔لیکن دوستو نبض کی تعریف کے ساتھ ہی ایک سوال پیدا ہوتا ہے وہ عضو جو نبض میں انقباض وانبساط پیدا کرتا ہے اس کی حقیقت  کوسمجھیں گے تو نبض کے اصل مفہوم کی سمجھ آۓ گی۔ اب ایک بات توواضح ھے کہ نبض کی تڑپ دل کے پھیلنے اور سکڑنے سے پیدا ہوتی ہے تو وہ عضو تو دل ہی ہوا نا جس کی تشریح اور توضیح سمجھے بغیر آپ نبض کی تشریح نہیں سمجھ سکیں گے۔

 

باقی اگلی قسط میں



(تحریر اُستاذُالحُکماء جناب حکیم محمود رسول بُھٹہ)


 

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me Know