تشخیص امراض وعلامات۔قسط
نمبر24
مشینی اور کیمیائی
تحریک
آپ کو یہاں تک تو علم
ہو ہی چکا ہے۔ مشینی تحریک عارضی اور وقتی طور پہ لا حق ہوتی ہے اور ہوتی بہت شدید
ہے۔ جبکہ کیمیاوی تحریک اس کے مخالف سمت ہوتی ہے۔ آپ کو مضمون کے شروع میں یہ بات
بھی بتا چکا ہوں خلط بلغم سے جسم کا سفید ہوجانا، خلط سودا سے جسم کا سیاہ ھوجانا، خلط صفرا سے جسم کا پیلا ھوجانا یہ سب کیمیاوی
اور خلطی امراض ہیں۔ جو مختلف اعضاء کی تحریک کی واضح علامات و نشاندہی کرتی ہیں۔
یاد رکھیں جب بھی
کوئی خلط جسم میں بڑھ جاۓ تو اس کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اب مطعلقہ عضو جسم میں خلط پیدا تو کررہا ہے لیکن تحریک کی کمزوری کی وجہ سے جسم سے خارج نہیں کرپا رہا۔ اب دو باتیں بالکل واضح ہوتی ہیں۔ خلط کے جسم میں بڑھ جانے کی وجہ سے اس کا رنگ جسم پہ واضح نظر آنا شروع ہوجاتا
ہے۔ دوسری بات جب بھی کسی خلط کا ضرورت سے زیادہ جسم میں بڑھ جانے سے جسم میں
تکلیف بھی شروع ہوجاتی ہے۔ اگر یہی خلط جسم سے تیزی کے ساتھ خارج ہورہی ہو تو آپ
اسے مشینی تحریک کہتے ہیں۔ جیسے یرقان جگر کی کیمیائی تحریک ہے اور پیچش جگر کی
مشینی تحریک ہے یا یوں کہہ لیں صفراوی دست جگر کی مشینی تحریک سے ہیں۔ اسی طرح شوگر
کو دماغ کی کیمیاوی تحریک کہیں گے جبکہ ہیضہ دماغ کی مشینی تحریک میں ہوتا ہے۔ اب
اس تمام بحث کا حاصل یہی ہے۔ جب اخلاط جسم سے اخراج پاتی ہیں۔ تو متعلقہ اعضاء کی
مشینی تحریک سے ہوتا ہے اور جب اخلاط بجائے اخراج کے جسم میں جمع ہورہےہوں تو یہ
متعلقہ عضو کی کیمیائی تحریک ہے۔
اب اس
بحث سے ایک نقطہ بھی سمجھ لیں۔ جب جسم میں کیماوی تحریک خلط بڑھ جاتی ہے۔ جیسے غدی
عضلاتی تحریک میں جسم میں صفرا پیداہونے کے ساتھ ساتھ صفرا خارج قطعی نہیں ہوتا
انجام کار یرقان ہو جاتا ہے۔ اب اس یرقان کا سب سے بہترین علاج جسم میں مشینی
تحریک کا پیدا کرنا ہے۔ یعنی صفرا پیدا بھی ہو اور خارج دوگنی یا چار گنا سے بھی
زیادہ بڑھ کر ہو تو اس کے لئے جسم میں مشینی تحریک پیدا کرنے ضرورت ہے۔ تو غدی
اعصابی تحریک پیدا کریں۔ انشاءاللہ مریض صحت مند ہو جا ئے گا۔
لوگوں
کا خیال ہے کہ تلی بھی عضو رئیس ہے۔ جیسے دل دماغ اور جگر ہیں اور مجھے حیرت بھی ہے۔
بہت سے ہی حکماء بغیر سوچے سمجھے اس بات کے قائل ہیں۔ آپ دوستوں کا کیا خیال ہے
پہلے تھوڑی مختصر اور مدلل بحث اس پہ لکھوں کہ تلی حقیقت میں کیا ہے۔ تاکہ یہ روز
روز کا جھگڑا ختم ہو جاۓ۔ آفاقی عمل صحت مرض کے بارے میں
آسمان کی
بلندی پہ آپ دماغ کو رکھ دیں۔ جہاں سورج طلوع ہوتا ہے وہاں دل کو رکھ دیں۔ جہاں
سورج غروب ہوتا ہے وہاں جگر کو سمجھ لیں۔ یہ ایک تکوں کی شکل بن جاۓ
گی۔ یا یوں سمجھ لیں دماغ کو شمال کی سمت اور دل کو مشرق کی سمت اور جگر کو مغرب کی سمت رکھ لیں۔ اب دو باتوں کو ذہن میں
لائیں۔
ایک زمین گول کُرّہ ہے۔
دوسرا گھڑی یا کلاک
کو ذہن میں رکھ کر
گھڑی کی سوئیوں کو ذہن میں رکھ لیں کہ کیسے گردش کرتی ہیں ۔کیسے ہندسے کراس کرتی ہیں
ایک دو تین چار پانچ باآلاخر گردش مکمل کرکے جیسے بارہ سے یعنی شمال سے گردش شروع ہوئی
تھی وہیں آکر دائرہ مکمل کردیتی ہیں۔ اسے کہتے ہیں کلاک وائز حرکت اور اگر سوئیاں
الٹا چلنا شروع ہو جائیں جیسے بارہ سے گیارہ پھر دس پھر نو پھر آٹھ اوراسی طرح پھر
بارہ کی طرف واپس لوٹیں تو آپ اس گردش کو اینٹی کلاک وائز کہیں گے۔ اب کائینات میں
سورج کی جو گردش آپ کو نظر آتی ہے یہ اینٹی کلاک وائز آپ کو نظر آتی ہے۔ لیکن وقت
کی گردش کلاک وائز ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تو دوستو
گھڑی سچ بول رہی ہے اور جو آپ کو نظر آرہا ہے وہ سچ نہیں ہے۔ آپ کو سورج تو مشرق
سے طلوع ہوتا نظر آتا ہے اور مغرب میں غروب ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن سچ یہ نہیں ہے۔
دوستو سچ یہ ہے سورج تو صرف اپنے محور کے گرد گردش کررہا ہے۔ جبکہ زمین مغرب سے مشرق
کی طرف گول گوم رہی ہے اور یہ اس کی ایک اپنی گردش ہے دوسری گردش زمین کی یہ ہے کہ
زمین گول گول گھومتے ہوۓ سورج کے گرد بھی چکر کاٹتی ہے۔
اب حاصل بحث کو سمجھیں جیسے زمین مغرب سے مشرق کی طرف گھوم رہی ہے۔ تو آپ یوں سمجھ لیں سورج اپنے مقام پہ ہے، زمین گھومتے ہوۓ جو حصہ بھی سامنے آتا ہے اس پہ سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے اور اسی گردش کے مطابق گھڑی کی سوئیاں بھی بنائی گئیں۔ بالکل یہی گردش صحت کے لئے اور زندگی کے لئے اور انسانی ارتقا اور نشوونما کے لئے انسانی جسم کے اندر موجود ہے یعنی دماغ سے چل کر دل کی طرف اور دل سے چل کر جگر کی طرف اور جگر سے پھر دماغ کی طرف گردش ھے۔ یعنی اللہ تعالی نے جتنی کائینات باہر بنائی ہے، اتنی ہی وسیع کائینات اور وہی نظام وہی گردش انسانی جسم کے اندر بھی بنایا ہے تین ہی زمانے ہیں۔ تین ہی وقت ہیں۔ زمانے ماضی مستقبل اور حال ہیں۔ وقت طلوع یعنی بچپن تھا پھر عروج یعنی جوانی آگئی پھر غروب یعنی بڑھاپا آگیا۔ باآلاخر موت کا سناٹا چھا گیا یہی گردش کیمیاوی اور مشینی تحاریک ہیں۔ یہ بحث آپ کو کسی بھی کتاب میں نہیں ملے گی دوستو بحث بڑی ہی لمبی ھے۔ یہ سب مضمون پڑھنے کا مزہ تو تب ہی آتا ہے استرلاب ہو کرہ ہو پھر گردش سمجھائی جاۓ وقت کی عمیق گہرائیوں میں چھلانگ لگائی جاۓ۔ میں آپ کو یہاں جتنا سمجھا سکتا تھا بتا دیا ھے باقی کچھ خود ہی وقت ودماغ کے گھوڑے دوڑا کر سمجھ لیں

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
If you have any doubts, Please let me Know