قسط نمبر 32. تشخيص امراض وعلامات
قسط نمبر تیس میں بات
ختم ہوئی تھی کہ افضل مقام نبض دیکھنے کا کلائی ہے اور پھر قسط نمبر 31 میں دیگر وضاحتوں کی نظر ھو گئی آج کی پوسٹ میں نبض دیکھنے
کے طریقہ کی تشریح کریں گے۔ جو سب کچھ ہر کتاب نبض میں لکھا ہوتا ہے۔ میں بھی آپکی
یاداشت تازہ کرنے ودیگر مبتدی حضرات کے لئے اس یاداشت کو لکھ رہا ہوں۔
جس طبیب نے نبض
دیکھنی ہو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ خود تندرست وتوانا وچست ومعتدل مزاج ہو ایسا نہ
ہو خود آخری دم پہ ہو اور دوسرے کی نبض دیکھ کر زندگی کی امید دلا رہا ہو( کچھ وضاحتیں
میری طرف سے بھی)
طبیب نبض دیکھتے وقت
مریض کا ہاتھ پہلو پہ رکھے
جب مریض کا ہاتھ طبیب
کے ہاتھ میں ھو تو وہ نہ تو چت ہو نہ الٹا ہو بلکہ پہلو پر ہو یعنی کھڑا ہو اور
اوپر کی طرف انگوٹھا ہواور نیچے کیطرف چھوٹی انگلی ہو۔
نوٹ۔۔ ہاتھ
پہلو پہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ پٹ یا اوندھا ہونے کی صورت میں نبض کی چوڑائی بلندی
۔ اور اس کا شرف بڑھ جاتا ہے اور لمبائی گھٹ جاتی ہے۔ خاص کر یہ لاغروں میں یہ
حالت نمایاں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر ہاتھ سیدھا یا چت ہو تو بلندی اور لمبائی
بڑھ جاتی ہے اور چوڑائی کم ہوجاتی ہے۔ یہ بہت ہی اہم نقطہ ہے۔
یہ بھی ضروری ھے کہ
نبض ایسے وقت دیکھی جاۓ کہ جب مریض نہ تو غصہ میں ہو نہ ہی رنج غمی خوشی لذت مسرت اور ریاضت اور
تمام انفعالات نفسانیہ سے خالی ہوتا ہے۔ نا اس کا اتنا شکم پر ہو نا ہی بالکل خالی
نا بوجھل ہو۔ نیز وہ اپنی کسی عادت کو
چھوڑے ہوۓ نہ ہو اور نہ ہی کوئی نئی عادت پیدا کر لی ہو۔ کیونکہ ان تمام امور سے مزاج نبض میں شدید اختلافات عضیم پیدا ہو جاتے ہیں۔ دوستو یہ فرمان
بوعلی سینا کا ھے میرا نہیں۔
یہ بھی ضروری ھے کہ
نبض دیکھتے وقت اس کا مقابلہ اور امتحان بہترین اور معتدل شخص سے کیا جاوے تاکہ
نبض معتدل اور غیر معتدل کا باہمی اندازہ قائم ہو سکے۔ یہ بھی بوعلی سینا کا فرمان ھے۔
اب ان دونوں فرمانوں کی
تشریح کردوں۔ بات صرف اتنی تھی صبح سویرے
نبض دیکھنا افضل ھے اور کچھ بھی بات نہیں ہے۔ اشاروں کناؤں میں بات لکھی ہوئی ہے تاکہ صرف ایک
فلاسفی ہی سمجھ سکے۔
نبض دیکھتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ھے۔
1۔ مریض کے دائیں ہاتھ کی نبض طبیب بھی دائیں ہاتھ سے دیکھے بائیں ہاتھ
کی نبض طبیب بھی بائیں ہاتھ سے دیکھے۔
2۔ دائیں ہاتھ کی نبض دائیں ہاتھ سے ذرا دیر تک دیکھے کیونکہ دائیں
ہاتھ کی حس نسبتہ ذکی اور تیز ہوتی ہے۔
3۔ طبیب نبض دیکھتے وقت اپنے دوسرے ہاتھ کو بطور سہارا مریض کے ہاتھ
کے نیچے رکھے تاکہ ہاتھ کو اٹھانے سے مریض کا ہاتھ تھک نہ جاۓ
۔
4۔ طبیب بھی نبض دیکھتے وقت ایسے تمام عوارض بدنیہ ونفسانیہ سے
خالی ہو جو اسکی توجہ کو کم کرنے والے اور دوسری طرف پھیرنے والے ہوں یعنی غصہ
خوشی بھوک پیاس نیند سے اونگھ نہ رہا ہو۔ کیونکہ معالج کو معتدل المزاج اور سلیم الذہن
اور صحیح الطبع ھونا چاھیے۔
5۔طبیب کی انگلیاں کھردے کاموں کی وجہ سے کھردری نہ ہونی چاہیے۔ نرم ملائم اور ذکی الحس اور بخوبی احساس کرنے
والی ہونی چاہیے۔ یہ نہ ہو لوھا یا لکڑی
کوٹے کاٹے اور نبض دیکھنے لگ جاۓ۔
6۔ طبع کا بھی نفیس ہونا ضروری ہے۔
7۔ گندگی سے دور رہتا ہو۔
8۔ یہاں تک کہ بال تراش بھی نہ ہو۔
9۔ نفیس طبع اور حساس ہونا طبیب کے ضروری ھے کیونکہ طبیب کے ذہن میں وہ تمام باتیں موجود ہوں جن
سے نبض میں تغیرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثلا اختلاف ممالک مختلف ہوائیں اور سرد وگرم
ماحول میں چلا جانا یعنی طبیب کی اپنی حس اتنی تیز ھو کہ وہ اپنی انگلیوں سے ہر
چیز کا احساس کرسکے۔
10۔ سونگھ کر سب کچھ سمجھ سکے یعنی ذہن کی نفاست جس
میں اخلاق اور مثبت سوچ ہو۔
11۔ اخلاقی لحاظ سے بلند پاۓ
کا ہو۔
12۔ مریض خواہ جان کے دشمن خاندان سے تعلق رکھتا ہو طبیب پہ فرض ھے مریض کی جان بچائے اس سے بہترین اخلاق سے پیش آۓ۔
13۔ نبض قوی کو زور سے دبا کر دیکھے تاکہ اس کے زور کا اندازہ ہوسکے۔
14 ۔نبض ضعیف کو
معمولی دباؤ سے محسوس کرے زیادہ دباؤ سے نبض معدوم ہو جاۓ
گی۔
15۔ نبض دکھاتے وقت مریض اپنے ہاتھ سے کوئی کام نہ کررھا ہو۔ نہ ھی کسی چیز کو اٹھاۓ
نہ ہی اس ہاتھ سے کسی چیز کا سہارا لیے ہوۓ
ہو ۔
16۔ اس کے علاوہ نہ ہی مریض کے ہاتھ یا بازو بندھے ہوۓ
ہو۔ جیسے ہیضہ کے مریض کے بازو کندھوں کے قریب سے کپڑے کی پٹی سے باندھ دیا
کرتے ہیں۔
17 ۔ہاں کلائی پہ گھڑی یا خواتین تنگ زیور چوڑیان وغیرہ
پہنے ہوۓ ہوں تو انہیں بھی ڈھیلا کردینا یا اتروا دینا چاھیے۔
18۔ طبیب مریض کے پاس جاتے ہی نبض نہ دیکھنی شروع کردے بلکہ خوش
اخلاقی سے باتوں میں لگاۓ تاکہ مریض مانوس ہوجاۓ
۔ اس کی کیفیت کے بارے میں مرض کے بارے
میں پوچھے پھر اسے تسلی دلاسہ دے اس کے اندرسے خوف نکالے پھر نبض دیکھے۔
یاد رکھین جب مریض طبیب کے پاس پہنچتا ھے تو چند
چیزوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ مریض کے اندر
ایک قسم کی ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے کہ پتہ نہیں حکیم صاحب مجھے کیا بتاتے ہیں۔ بعض اوقات طبیب کا رعب مریض کے حالات واقعات
خیالات سب کچھ متغیر ھوجاتا ھے۔ بس یہ نہیں
ہونا چاہیے۔ اسے ان باتوں سے آزاد کرنے کے
لئے اس کے ساتھ رشتہ استوار کریں۔ جیسے
باپ بیٹے کا بھائی کا خواتین ہیں تو بیٹی باپ بن جائیں یا بھائی ہونے کا احساس دلائیں یعنی اچھے اور با
اخلاق رشتے سامنے رکھیں۔ تاکہ مریض کے اندر
اعتماد پیدا ھو پھر نبض دیکھیں۔ انشاءاللہ
رزلٹ درست ملے گا۔
عورتین صنف نازک ہوتی
ہیں۔ اس لئے زیادہ دیر تک نبض نہیں دکھا
سکتی۔ ایک نوجوان لڑکی ایک نوجوان طبیب کا
زیادہ دیر ہاتھ پکڑے رہنا بدنیتی کا الزام لگنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے مریض سے کیفیت زیادہ پوچھیں اور
نبض پہ وقت کم لگائیں تاکہ آپ پہ الزام نہ آۓ
اس پیشہ میں صاف نیت اور پاکیزہ خیالات کا ہونا بہت ہی ضروری ھے۔ ورنہ شفا تو گئی آپ کے ہاتھوں سے۔
ایک آخری بات جسے
اپنانا بہت ھی ضروری ھے۔ دوا دیتے وقت
قرآن کی تلاوت یا کم سے کم کلمہ طیب ضرور پڑھتے رہا کریں شفا یقینی ہوجاۓ
گی۔
انشاءاللہ کل سے
مضمون سیدھا سیدھا نبض کی بحث پہ شروع ھو گا۔ جسے سمجھنا آپ کے لئے از حد ضروری ھے مضمون کو
بار بار پڑھنا لازم ھوگا تبھی فلسفہ نبض کی سمجھ آسکے گی۔
(تحریر اُستاذُالحُکماء
جناب حکیم محمود رسول بُھٹہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
If you have any doubts, Please let me Know