Moteb E Shifa (مطب شفا)

پیر، 2 دسمبر، 2024

قسط نمبر 30. تشخيص امراض وعلامات، شریان کی ساخت، طبیب کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے، نبض دیکھنے میں بہت ہی اہم نوٹ

 

تشخيص امراض وعلامات ۔۔۔۔۔۔قسط نمبر 30

     

 

کل کے اقوال کی مختصر تشریح کچھ یوں ہے قرشی صاحب نے بڑی سادگی سے دل کا فعل لکھ دیا اور یہ بھی بتا دیا باقی اعضائے رئیسہ کا اثر بھی دل پہ اور نبض کی حرکات پہ پڑتا ھے۔ جبکہ مسیح الملک حافظ اجمل خان صاحب نے واضح طور پہ بتایا کہ دماغ کی تیزی اور سستی دیکھیے جسے نظریہ نے مزید تشریح کرتے ہوۓ تحلیل تحریک اور تسکین دماغ کی وضاحت کردی۔ اسی طرح جب انہوں نے فرمایا آلات ہضم اور کبد کے ضعف تو بھی جگر کی سستی اور تیزی کے بارے میں کہا ہے۔ اسی طرح واضح طور پہ قلب کی سستی اور تیزی کی وضاحت فرمائی ہے۔ یعنی یہاں بھی تحریک تحلیل اور تسکین کی بات کررہے تھے۔

دوستو واضح طور پہ تشریح نبض پہ کسی بھی حکماء متقدمین نے نہیں لکھا جبکہ ان کی تحریوں سے یہ واضح اشارے ملتے ہیں کہ وہ جانتے سب کچھ تھے ۔لیکن وضاحت نہیں لکھتے تھے اور جو کچھ لکھا ہے اس میں اتنی فلاسفی ہے۔ جسے سمجھنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔ آج میں کچھ قدیم تصاویر بھی ساتھ لگا رہا ہوں یہ قلمی کتاب ھے عمر اس کتاب کی سینکڑوں سال ہے۔ اب ان خاندانی نسل در نسل چلنے والی کتابوں میں طب کی تشریحات کچھ اور انداز سے ہیں جہاں تک میں نے آج تک سمجھا ہے مجھے ایک ہی بات کی سمجھ آئی ھے وہ یہ کہ ہندوستان کے چند خاندانوں نے طب کو قید کر لیا اس کی تشریحات اور حقائق ظاہر نہیں ہونے دیے ۔شاھی طبیب مقرر ہونا ان ہی خاندانوں کے اندر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی مسلمانوں نے طب کی زیادہ تشریح قطعی نہیں کی یہ خلافت کا دور رہا ہے۔ بوعلی سینا نے تقریبا سات سوسال پہلے القانون لکھی جس کا مقصد اور اظہاریہ ہے صحت ومرض قدرت اور فطرت ہی ہیں۔ بالکل اصول وقائدوں اور ترتیب کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ روزانہ زندگی کے تجربات ومشاہدات کے اصولوں کے تحت القانون کتاب لکھی اور بتادیا کہ یہی علم فن طب کے بنیادی قوانین ہیں۔ ترتیب کمال کی ہے۔  اس میں دوستو صرف یہی کتاب جو حقیقی تھی یورپ کے ہتھے چڑھی تھی۔ وہ چھ سوسال تک من وعن اپنی درس گاہوں میں اسے پڑھاتے رھے ۔ باقی طب کا کوئی خاص راز یورپ کے ہتھے نہ چڑھ سکا ۔پھر انہوں نے اپنی خوب محنت کی اور بدلہ ھم آج تک دے رہے ہیں۔  

 

اب تھوڑی وضاحت کہ شریان کی تڑپ کیسے پیدا ھوتی ھے۔ شریان کے پھیلاؤ اور سکڑاؤ کی وضاحت تو کردی لیکن تڑپتی کیسے ھے ؟

شریان کی ساخت:

پہلے شریان کی مختصر ساخت بتاتا ہوں۔  یاد رکھیں شریان کی بناوٹ قریب قریب دل کی بناوٹ کی طرح ہے۔ لچکدار نالی ہوتی ہے۔ ہر شریان کی ساخت میں تین پردے یا طبقے ہوتے ہیں۔ شریان کا اندرونی پردہ نہایت لچکدار اور پتلا یا باریک ھوتا ھے۔ یہ انڈوتھیلم نازک جھلی سے بنا ھوتا ھے۔  یہ جھلی دل کے اندرونی حصہ میں لگی ھوتی ھے اور بیرونی تہہ لچکدار ریشوں سے بنی ہوتی ھے۔  اب ان دونوں کے درمیان بھی ایک تہہ ہے جو موٹی اور سرخی مائل ھوتی ھے۔  یاد رکھیں شریان کی بناوٹ میں لحمی وتری اور رباطی ریشے ہوتے ہیں اور جب دل سکڑتا ھے تو شریانوں میں خون جاتا ھے۔  تب شریانوں میں حرکت وتڑپ پیدا ھوتی ھے اور جب خون واپس آتا ھے تو شریانیں سکڑتی ہیں۔  اب شریانوں کی اس اچھل کود اور تڑپ کو ہی نبض میں دیکھا جاتا ہے تاکہ علم ہو سکے، دل یا باقی مفرد عضو کا کیا حال ھے۔

 

طبیب کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔

اب نبض کا صحیح تصور جو طبیب کے ذھن میں ہونا چاہیے وہ ہے نبض میں خون کا دباؤ وخون کی رطوبات و خون وجسم میں حرارت کا توازن معلوم کرنا۔

اب مرض کی حالت میں خون کا دباؤ ورطوبت اور حرارت جسم بدلتی رہتی ہیں۔ یہی چانچنا کہ کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔  ا سے مرض کا پتہ چلتا ھے۔

 

اب تھوڑا بات کو سمجھیں ۔یہ تو آپ کو پتہ ہے دل ایک عضلاتی عضو ہے۔ مگر اس پہ دوعدد پردے چڑھے ہوۓ ہیں۔ اب دل کے اوپر کا پردہ غشاۓ مخاطی اور غدی ہے اور اس کے اوپر بلغمی یا اعصابی پردہ ہے۔ جو شریانیں دل اور اس کے دونوں پردوں کو غذا پہنچاتی ہیں۔ اگر ان میں تحریک یا سوزش آجاۓ جس سے ان میں تیزی آجاۓ اب اس کا اثر حرکات قلب اور افعال شریان پہ پڑتا ھے۔ جس سے ان مین خون کے دباؤ اور خون کی رطوبت اور خون کی حرارت میں کمی بیشی آجاتی ہے۔

 

  اب اس بات کو دماغ میں بٹھا لیں۔

  جب شریان میں خون کا دباؤ قلب کی تحریک سے ہوتا ہے تو یہ اس کی ذاتی اور عضلاتی تحریک ھے۔

  خون کی رطوبت کی زیادتی دل کے بلغمی پردوں کی تحریک ھوتی ھے۔

  اسی طرح خون کی حرارت دل کے غشاۓ غدی پردے میں تحریک ھوتی ھے۔

 

نبض دیکھنے میں بہت ہی اہم نوٹ:

یعنی سب سے پہلا کام جو نبض سے ھم نے دیکھنا ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت کیا جسم میں قوت کی زیادتی ہے یا حرکت کی زیادتی ہے یا حرارت کی زیادتی ہے اب ابتدائی ان ہی چیزوں کے نوٹ کرنے سے ہمیں دل کی حالت جگر کی حالت اور دماغ کی حالت کا پتہ چل جاتا ھے۔

اب بات کرتے ہیں نبض کس مقام سے دیکھنا افضل ہے تو اس پہ تمام حکماء نے کلائی۔۔۔۔

بقیہ حصہ اگلی قسط میں

 

(تحریر اُستاذُالحُکماء جناب حکیم محمود رسول بُھٹہ)

(ہماری اس کاوش کو اپنے دوستوں میں ضرور شئیر کیا کریں)

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

If you have any doubts, Please let me Know