عضلاتی اعصابی نبض و مزاج اور ٹانگوں کی بیماریاں
نقرس، یورک ایسڈ کی زیادتی،
نبض نمبر تین بمطابق مقام نبض
مقام نبض پر اپنی چاروں انگلیاں رکھیں اور انگلیاں رکھتے ہی آپ کو نبض اوپر ہی اوپر محسوس ھو اور باقی دو انگلیوں میں محسوس نہ ھو تو یہ نبض عضلاتی اعصابی کہلاتی ھے۔
یہ نبض کی بار بار تکرار اسی وجہ سے ھے کہ پڑھنے والے کے دل میں اتر جائے کہ یہ نبض عضلاتی اعصابی ھے اور یہ پکی تجربہ کی بات ھے۔ اگر آپ اس خیال میں ھیں کہ جو نبض پوری قوت سے محسوس ھو اوپر ھی اوپر مشرف ھو تو یہ نبض عضلاتی ھے تو آپ کبھی بھی نہ صحیح تشخیص کرسکتے ھیں نہ صحیح نبض شناس بن سکتے ھیں۔
اگر پہلی انگلی میں نبض قوت سے اوپر محسوس ھو اور سخت ھو تو کیا یہ عضلاتی اعصابی ھے یا دوسری میں ایسی محسوس ھو تو یہ عضلاتی اعصابی ھے یا تیسری میں محسوس ھو تو یہ عضلاتی اعصابی ھے یا چوتھی میں محسوس ھو تو یہ عضلاتی اعصابی ھے یا پانچویں میں محسوس ھو تو یہ عضلاتی اعصابی ھے یا چھ میں محسوس ھو تو یہ عضلاتی اعصابی ھے۔
یادرکھیں۔
ھر نبض کاایک مقام مقرر ھے۔ اگر آپ اندازے پر علاج کرو گے کہ یہ عضلاتی اعصابی ھو سکتی ھے تو یہ مریض کے ساتھ زیادتی ھے۔ کیونکہ قانون کی ادویہ تو بھترین ھیں مگر صحیح تشخیص و مزاج سے نہ دی جائیں تو ایسا برباد کرتی ھیں کہ پھر کوئ دوا موافق ھی نھیں پڑتی اور اکثر حکیم بھی مریض ھیں.
آپ فیس بک پر زبان یا قارورہ کی تصویر لگی دیکھتے ھیں اور نیچے حکماء کی تشخیص ھی ایک نھیں ھوتی اور نہ علاج، کیا وجہ ھے یہی ھے کہ ھر ایک نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنالی ھے اسکو جیسے اس کے استاد نے رٹایا اسی کو عقل کل سمجھ بیٹھا۔
اسی لیے قانون مفرد اعضاء کے چھ مزاج ھیں اور چھ نبضیں ھیں ھر ایک کا ایک مقام ھے اور حکیم صابر صاحب کی بھی یہی تعلیم ھے۔
باقی آپ دیکھ سکتے ھیں کہ آجکل کیا چل رھا ھے۔
حکماء حضرات ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکروں میں ھیں اور نت نئے طریقے خیالی ایجاد کر رھے ھیں اور کہتے ھیں پہلے صحیح نھیں تھے انکو سمجھ نھیں آئی ھمارا طریقہ صحیح ھے حالانکہ اسی کا غلط ھوتا ھے۔
اسی لیے بھترین طریقہ علاج و تشخیص یہی نبض ھے اور میں نےاسے بھت آسان بنانے کی کوشش کی ھے۔
حالانکہ بڑے بڑے حکماء پروفیسر اور طبیہ کالج کے لیکچراروں کو نبض دیکھنی نھیں آتی وجہ کیا ھے کہ بھاری پتھر سمجھ کر چوم کر چھوڑ دیتے ھیں۔
ان شاءاللہ میرے طریقہ سے سب کو سمجھ ایے گی نبضیں وھی پرانی ھیں میں نے ایجاد نھیں کیں۔ میں نے بس اس کو آسان لفظوں مین سمجھایا ھے۔ مگر پھر بھی بہت سے لوگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو قبلہ سمجھ کر حسد کی آگ میں جلتے ھیں۔
چلیں موضوع کی طرف آتے ھیں۔
1۔۔ نقرس، یورک ایسڈ کی زیادتی
یہ مرض بھی اگرچہ وجع المفاصل ھی کی ایک نوع ھے مگر اسمیں ٹخنے اور ھاتھ پاؤں کے جوڑوں میں درد اور ورم کا انحصار ھوتا ھے۔ پاوں کے انگوٹھے کے جوڑ کو نقرس کہتے ھیں۔ اگر ھاتھوں کی انگلیوں اور جوڑوں میں بھی درد اور سوزش و سوجن ھو تو بھی نقرس سے ھی موسوم ھوگا۔
یہ موروثی بھی ھو سکتا ھے اور عورتوں کی نسبت مردوں کو زیادہ ھوتا ھے۔
اکثر تو 40 سال کے بعد ھوا کرتا ھے اور اگر ماں باپ دادے نانے اس میں مبتلا ھوں تو ھر عمر میں ھو سکتا ھے۔ دس بارہ سال کے لڑکے بھی اس مرض میں مبتلا دیکھے گیے ھیں۔
زیادہ تر امیر لوگوں کو ھوا کرتے ھے پلاو قورمہ کھاتے اور عیش کی زندگی بسر کرتے ھیں یا شراب و کباب کے دلدادہ ھوتے ھیں۔
پرانی بدھضمی، جگر کی سستی کمزور، سیسہ کا زھر، پارہ بھی اس کے اسباب ھین
ھر وقت کی پریشانی، سوچ، تفکرات، کثرت مشاعل، مرطوب ھوا اور بدلتے موسم بھی اسکے اسباب ھین
نقرس کی کئ اقسام ھیں۔
1۔ نقرس شدید
2۔ نقرس مزمن
3۔ نقرس اندرونی
4۔ نقرس بے قاعدہ
1۔ نقرس شدید
نقرس شدید کی صورت میں دو تین دن پہلے علامات ھوا کرتی ھیں۔ چنانچہ ھاضمہ خراب ھو جاتا ھے۔ رات کو نیند نھی آتی، مزاج چڑچڑا ھو جاتا ھے۔ دل دھڑکتا ھے سر درد، چکر، ھاتھ پاؤں کی انگلیاں کھنچتی، پھڑکتی ھیں اور ان مین سرسراہٹ محسوس ھوتی ھے۔
کبھی گلے میں درد، پیشاب غلیظ یا زیادہ مقدار میں پتلا آتا ھے۔
بعد میں نقرس حملہ کرتا ھے۔
اس مرض کا حملہ عموما رات کو پچھلے پہر ھوتا ھے۔ اکثر دائیں پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ میں ھوتا ھے پہلے لیکن کبھی دونوں پاوں کے انگوٹھے کے جوڑوں میں بھی ھوتا ھے۔
کبھی ایڑی یا ٹخنے کے جوڑ میں اس شدت کا درد ھوتا ھے کہ مریض جاگ پڑتا ھے۔ ماوف مقام یا جوڑ متورم ھو جاتا ھے اور سرخ ھو جاتا ھے اور درد کی شدت کی وجہ سے اس میں مطلق حرکت ھی نھیں ھوتی ،نہ لایا جانتا ھے نہ چھوا جاتا ھے۔
2:- پرانا نقرسں
پرانے نقرس کی صورت میں مرض کے حملےدیر بعد ھوا کرتے ھیں اور زیادہ جوڑ مبتلا ھوتے ھیں اور چند حملوں کے بعد ماوف جوڑ سوج جاتے ھیں اور بے ڈول ھو جاتے ھیں۔
انگلیوں کی جڑوں میں یوریٹ آف سوڈا کے جمع ھو جانے سے بڑی بڑی گٹھلیاں یا ابھار بن جاتے ھیں۔ جن کے اوپر کا چمڑا پھٹ کر نیچے کھریا مٹی کی طرح پوریٹ آف سوڈا نمایاں ھو جاتا ھے۔
زیادتی یورک ایسڈ کے سبب کبھی کان اور ناک کی لو میں بھی ایسا مادہ پیدا ھو جاتا ھے۔ ایسے مریضوں کا ھاضمہ کبھی ٹھیک نھیں رھتا۔
3:- نقرس اندرونی
نقرس اندرونی میں جب نقرس کا حملہ ھوتا ھے تو یہ بیرونی جانب رک کر جوڑوں کے اندرونی اعضاء کی طرف منتقل ھو جاتا ھے اور حرکت قلب غیر منظم ھو جاتی ھے۔ پیٹ میں درد، قے دست، اور سانس کی تنگی شروع ھو جاتی ھے اور چھاتی کے مقام پر قلب میں درد ھوتا ھے۔
حتی کہ مادہ مرض کی زیادتی کی وجہ سے ہذیان اور سکتہ بھی ھو سکتا ھے اور یہ حالت بہت موذی اور مہلک ھوتی ھے۔ بندہ کو ھمیشہ کیلے کوئی روگ لگ سکتا ھے۔ جیسے مالیخولیا، پاگل پن، دل کے مرض، سانس کے مسائل، پیٹ کے مسایل حتی کہ ھارٹ اٹیک تک ھو سکتا ھے۔
4:- نقرس بے قاعدہ
اس میں مادہ مرض کبھی کسی طرف نکل جاتا ھے تو کبھی کسی طرف، جس طرف جاتا اس عضو کا خراب کر دیتا ھے
،کبھی اندر تو کبھی باھر کے طرف،
اگر یہ علامات ھوں اور جب رپورٹ کرائی جائے تو یورک ایسڈ کی زیادتی آئے گی۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
If you have any doubts, Please let me Know